خار زار صحافت۔۔۔۔۔قسط سوم

0
2863

زیر تربیت صحافی یا سول سروس پروبیشنرز

تحریر: محمد لقمان

اے پی پی کے بیچ 1990 کی تربیت بھی نیوز ایجنسی کی تاریخ میں بڑا منفرد واقعہ تھا۔ خبررساں ایجنسی میں یہ پہلی بھرتی تھی جس میں سفارش کا عنصر بہت کم نظر آیا۔ میرے جیسے لوگ جن کا کسی سرکاری ادارے میں کوئی رشتہ دار نہیں تھا، اکثریت میں موجود تھے۔ اگر کسی کی بعد میں کسی سرکاری افسر سے رشتہ داری نکل بھی آئی تو وہ اتفاقیہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تربیت کا پروگرام اتنا شاندار طریقے سے ترتیب دیا گیا تھا کہ باہر کو لوگوں کو ایسے لگا جیسے زیر تربیت صحافی کسی خبر رساں ایجنسی کے لئے نہیں بھرتی کیے گئے۔ بلکہ پاکستان کی سول سروس کے رکن بننے والے ہیں۔ ہر ہفتےکی سرگرمیوں کا ایڈوانس میں پروگرام ملتا تھا۔ جس کے تحت کسی نہ کسی سرکاری ادارے میں بریفنگ ہوتی تھی۔ اور بریفنگ بھی اس ادارے کا سربراہ یا اس کا نائب دیتا تھا۔ اگر شہید ملت سیکریٹیریٹ میں پاکستان زکوۃ کونسل میں لے جایا گیا تو راولپنڈی میں ہلال روڈ پر واقع آئی ایس پی آر کے ہیڈکوارٹر میں بھی بریفنگ ہوئی۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل ریاض اللہ نے افواج پاکستان کے تعلقات عامہ کے ادارے کی سرگرمیوں کے بارے میں ہمیں تفصیل سے آگاہ کیا۔ ہم میں سے شفیق قریشی اور مسرور گیلانی جیسے چند افراد ہی اے پی پی میں بھرتی سےپہلے عملی صحافت میں حصہ لے چکے تھے ، بقیہ افراد کے لئے جو بھی بریفنگ ہوتی تھی، ہر چیز نئی لگتی تھی۔ اسلام آباد میں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا تو ایک سانولہ سلونا چہرہ شناسا لگا ۔ پتہ چلا کہ پی ٹی وی پر خبریں پڑھنے والی شائستہ زید تھیں۔ ریڈیو پاکستان کی ورکنگ پر بھی بریفنگ ہوئی۔ اس وقت سی این این اور ایس ٹی این کی نشریات چلانے والے ادارے شالیمار ریکارڈ کمپنی کا دورہ کیا تو پتہ چلا تو درآمدی میٹریل کی کیسے ایڈیٹنگ کی جاسکتی ہے۔ زیرو پوائنٹ پر واقع پریس انفرمیشن ڈیپارٹمنٹ لے جایا گیا تو پی آئی ڈی کی ملک کے اندر اور بیرون ملک سرگرمیوں پر بریفنگ دی گئی۔ پی آئی او احسان الحق کے ساتھ مرحوم عزیز الرحمان بگھیو بھی موجود تھے جو کہ اے پی پی میں ہمارے سینیر خلیل الرحمان بگھیو صاحب کے والد گرامی تھے۔ ہرادارے کے دورے کے بعد اس پر ایک سٹوری لکھنی پڑتی تھی۔ جس کو پہلے جلیل احمد صاحب چیک کرتے تھے اور بعد ازاں اس پر ڈائریکٹر نیوز ایم آفتاب کی بھی نظر پڑتی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here