تحریر محمد لقمان
یونیورسٹی آف ملایا۔۔۔۔ملائشیا کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ
سن وے سٹی میں ملائشیا کی جدید ترین یونیورسٹی سے نکلے تو دارالحکومت کوالالمپور میں واقع قدیم ترین تعلیمی اور تحقیقی ادارے یونیورسٹی آف ملایا کے لئے چل پڑے۔ تقریباً آدھے گھنٹے سفر کے دوران ٹورسٹ گائڈ پون کمار نے یونیورسٹی کی تاریخ کے بارے میں بتایا تو بڑی حیرانی ہوئی کہ اتنی پرانی یونیورسٹی ابھی تک تحقیق میں جنوبی ایشیائی ریجن میں سب سے آگے اور دنیا میں 87 نمبر پر ہے۔ مملکت خداداد پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی 500 کی لسٹ میں بھی نظر نہیں آتی۔ ملایا یونیورسٹی پہنچنے پر انسٹی ٹیوٹ آف بائیوٹیکنالوجی کے نمائندوں نے استقبال کیا۔ چوتھی منزل پر جوپیٹر روم میں بریفنگ کے لئے لے جایا گیا تو وہاں بائیوٹیکنالوجی انسٹیوٹ کی سربراہ ڈاکٹر جینفر ہری کرشنا موجود تھیں۔ برطانوی نژاد ڈاکٹر جینیفر نے برطانیہ اور امریکی کی یونیورسٹیوں سنے بائیو ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ دوران تعلیم ان کی ملاقات تامل النسل ملائشیائی بائیوٹیکنالوجسٹ ڈاکٹر ہری کرشنا سے ملاقات ہوئی جو کہ بعد میں شادی میں بدل گئی۔ شادی کے بعد ڈاکٹر جینفر ملائشیا کی مستقل شہری بن گئیں ہیں ۔ ان کے شوہر ڈاکٹر ہری کرشنا آئیل پام کے شعبے میں ریسرچ سے منسلک ہیں۔ ان سے بھی بعد ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر جینفر نے یونیورسٹی آف ملایا میں بائیوٹیکنالوجی اور جینیٹک انجینرنگ میں تحقیقاتی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی۔ پاکستانی سائنسدانوں کی طرح وہ بھی ملائشیا میں سرخ فیتہ کے بارے میں شاکی دکھائی دیں۔ 1905 میں قائم ہونے والی یونیورسٹی آف ملایا حکومت کے زیر سایہ چل رہی ہے ۔ وزیر اعظم مہاتیر محمد کی علم دوستی کے باوجود بھی بیوروکریسی کی طرف سے تحقیقاتی کاموں میں رکاوٹیں آتی ہی رہتی ہیں۔
بریفنگ کے بعد سب کو بائیو ٹیکنالوجی کی لیبارٹری تک لے جایا گیا۔ سب کو لیب میں داخل ہونے سے پہلے سبز اوور کوٹ پہنائے گئے۔ جوتوں کو بھی پلاسٹک کے کورز سے ڈھانپا گیا تاکہ باہر کی آلودگی لیبارٹری کے ماحول میں نہ جاسکے۔ لیبارٹری میں مرچ اور دیگر سبزیوں کی مختلف اقسام پر ریسرچ ہورہی ہے۔ جن میں جینیاتی تبدیلیاں کرکے بہتر خواص پیدا کیے گئے ہیں۔ نوجوان ریسرچررز نے بتایا کہ اگر یہ تجربہ کام ہوگیا تو نہ صرف فصلوں کو کیڑے مکوڑوں سے بچایا جاسکے گا بلکہ ان کی فی ایکڑ پیداوار بھی بڑے گی۔ ایک دن میں ہی دو یونیورسٹیوں کے دورے سے پتہ چلا کہ ملائشیا میں تحقیقی ترقی میں سرکاری اور نجی شعبے مل کر کام کر رہے ہیں۔ کاش پاکستان میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے ایسا کام ہوسکے اور ہماری یونیورسٹیاں عالمی رینکنگ میں آگےآ سکیں۔